21مارچ 1985
اجمیر کے قریب ایک پہاڑی علاقہ ہے،جس كو ميرات كهاجاتاهے۔ یہاں مسلمان معقول تعدادمیں آباد ہیں۔ مگر سب ان پڑھ اور پس ماندہ ہیں۔ وہ دین اور تہذیب دونوں سے دور ہیں۔
تقریباً 15 سال پہلے کی بات ہے مجھے اس علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ دو مولوی صاحبان اور تھے۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے میزبان کے گھر کی چھت پر پڑھی۔
میرے ساتھ جو مولوی صاحبان تھے، وہ اس انتظار میں تھے کہ میزبان نماز کے بعد چائے لے کر آئے گا۔ مگر میزبان نماز کے بعد ہم سے رخصت ہوکر گیا تووہ دوبارہ واپس نہیں آیا۔ انتظار کرتے کرتے عشاکا وقت ہوگیا۔ ہم لوگ عشا کی نماز پڑھ کر بیٹھ گئے ،مگر بدستور میزبان کا پتہ نہ تھا۔
میرے ساتھی جو اس سے پہلے چائے کے منتظر تھے، اب بھوک سے بے تاب ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ غرض کافی انتظار کے بعد میزبان بڑے سے برتن میں کھانا لے کر آیا۔ میرے ساتھی خوش ہوئے کہ آخر کار انتظار ختم ہوا۔ مگر ان کی خوشی دیر تک باقی نہیں رہی۔ میزبان نے برتن سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ جو کھانا وہ لے كر آیا ہے، عجیب وغریب کھانا ہے، یعنی ارہر کی دال اور گلگلہ۔
اب میرے ساتھیوں کا صبر ٹوٹ گیا۔ وہ بول پڑے کہ اتنی دیر کے بعد تم کھانا لائے ہو، اور وہ بھی ایسا عجیب وغریب کھانا جو ہم نے کبھی نہ کھایا تھا، اور سنا تھا۔ مگر میرا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ میں نے بہت خوشی کے ساتھ کھانا شروع کردیا، اور کہا کہ یہ تو بہترین کھانا ہے۔ میں کھاتا جاتا تھا ،اور تعریف کرتا جاتا تھا۔ اب میرے ساتھی بھی مجبور تھے۔ وہ بھی میرا ساتھ دیتے ہوئے کھانے میں شریک ہوگئے۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کی جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔