26جون 1985
ایک صاحب تھے۔ ان کی کوئی خاص تعلیم نہ تھی۔ اردواخبارات اور اردو ریڈیو سن کر جو معلومات انھیں مل گئی تھیں وہی ان کا کل علمی اثاثہ تھا۔ غریب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو بھی کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم نہ دلا سکے۔
مگر ان صاحب کی ’’انا‘‘ یعنی ایگو (ego)بے حد بڑھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کو سب سے زیادہ قابل سمجھتے تھے۔ ان کا جھوٹا احساسِ برتری کسی کی علمیت تسلیم کرنے میں مسلسل مانع بنا ہوا تھا۔ حتی کہ اپنے جاہل بچوں میں بھی انھوں نے یہی ذہن پیدا کردیا۔ انھوں نے اپنے بچوں کو سکھایا کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات پوچھے تو ایسا کبھی نہ کہو کہ ہم کو نہیں معلوم۔ چنانچہ ان کے بچوں کا ،جہالت کے باوجود ، یہ حال تھا کہ کوئی بات کہی جاتی تو فوراً بول اٹھتے:
ہماں کو سب معلوم ہے
یعنی ہم کو سب معلوم ہے۔ایسا ہی کچھ حال موجودہ زمانہ کے ’’علما‘‘ کا ہوا ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت محدود ہوتا ہے مگر ان کا ذہن مخصوص اسباب سے یہ بن جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ مدرسوں کے ان پیدا شدہ علما سے گفتگو کیجیے ۔ وہ کبھی یہ نہ کہیں گے کہ یہ بات میں نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ یہ ظاہر کریں گے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ان علما کو غیر علما بنانے میں سب سے زیادہ دخل ان کی اسی ذہنیت کا ہے۔
’’ہم کو سب بات معلوم ہے‘‘ کا مزاج آدمی کو ہر بات سے بے خبر کررہا ہے، اور موجودہ زمانہ کے علما اس کی عبرت ناک مثال ہیں۔