13 اگست 1985
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اور یہ قلب ہے (أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً:إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 52۔
ا س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی اصلاح کا دارومدار ’’قلب ‘‘ کی اصلاح پر ہے۔ یہاںقلب کا لفظ عقل کے معنی میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر قسم کی تبدیلیوں کا رازاندرونی تبدیلی میں ہے، یعنی سوچ و فکر کی تبدیلی، نہ کہ بیرونی تبدیلی۔
اس حدیث کی روشنی میں موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں غیر فطری قرار پاتی ہیں۔ کیوں کہ ان تحریکوں کا نشانہ کچھ خارجی چیزوں کی تبدیلیاں تھی، نہ کہ اندرونی تبدیلی۔ کسی کا نشانہ تبدیلی حکومت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلی جغرافیہ، کسی کا نشانہ تبدیلی قیادت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلیٔ قانون۔ موجودہ زمانہ کی وہ تمام ہنگامہ خیز تحریکیں جن پر مسلمان فخر کرتے ہیں، وہ سب اسی قسم کی خارجی تبدیلیوں کا نعرہ لے کر اٹھیں۔ ان میں سے کوئی تحریک ایسی نہیں جو تبدیلیٔ قلب (یا تبدیلیٔ انسان) کے منصوبہ کے تحت اٹھائی گئی ہو۔
خارجی تبدیلی کو نشانہ بنا کر جو انقلاب لایا جائے اس کا انجام ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— ایک برائی کو ہٹا کر دوسری شدید تر برائی لے آنا۔ کسی شخص نے نہایت صحیح کہا ہے:
A revolution is a successful effort to replace a bad government with a worse one.
انقلاب اس بات کی ایک کامیاب کوشش ہے کہ ایک بری حکومت سے چھٹکارا پاکر اس سے زیادہ بری حکومت قائم کی جائے۔