28 ستمبر 1985
پیسہ خرچ کرنے کے سلسلے میں قرآن میں اعتدال کا حکم دیاگیا ہے:وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (17:29)۔یعنی اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ لو اور نہ اس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ تم ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔ حدیث میں آیا ہے:مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَد (مسند احمد، حدیث نمبر 4269)۔ یعنی جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا۔
اکثر پریشانیوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اخراجات میں اعتدال کی حد پر قائم نہیں رہتا۔ شادی کرنا، گھر بنانا، اور اس طرح کے دوسرے اخراجات کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی طاقت سے زیادہ خرچ کر ڈالتاہے۔ اگر ایسے مواقع پر اپنی وسعت کو دیکھا جائے، نہ کہ کسی مفروضہ معیار کو، تو کبھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔