4جولائی 1985
اکثر باتیں بالکل سادہ اور فطری ہوتی ہیں مگران کو غیر ضروری طورپر پراسرار بنا دیا جاتاہے۔ مثلاً روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے جب مکہ میں بیت اللہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کو پکارو ، تاکہ وہ یہاں حج کے لیے آئیں۔حضرت ابراہیم کو اندیشہ ہوا کہ میری آواز ہر جگہ کیسے پہنچے گی۔ خدا نے کہا کہ تم پکارو اور پہنچا نا ہمارا کام ہے( يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أُبْلِغُ النَّاسَ وَصَوْتِي لَا يَنْفُذُهُمْ؟ فَقِيلَ:نَادِ وَعَلَيْنَا الْبَلَاغُ)۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے پکار کر کہا کہ لوگو! بیت اللہ کا حج کرنے کہ لیے آؤ۔ پھر پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ہر جگہ پہنچ گئی(تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ414)۔ اس واقعے کی اصل قرآن میں موجودہے :وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ(22:27) ۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔
پیغمبر ابراہیم کی یہ بات اگر بالکل لفظی معنوں میں ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر دوبارہ یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی :أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا(مسند احمد، حدیث نمبر 10607)۔ یعنی اے لوگو، بے شک اللہ تعالی نے تم لوگوں پر حج فرض کیا ہے تو حج کرو۔
حضرت ابراہیم کا اعلان دراصل بات کو کہنے کا ایک اسلوب ہے۔ حضرت ابراہیم کا اعلان پراسس کی تکمیل کااعلان نہیں تھا بلکہ وہ پراسس کے آغاز کا اعلان تھا۔ حضرت ابراہیم کے ذریعہ اس اہم اعلان کا آغاز کیاگیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعلان فرمایا۔ اس کے بعد آپ کی امت کے لوگ نسل در نسل اعلان کررہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔
اکثر غلط فہمی اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایک پراسس کے تحت جاری واقعات کوایک دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھتے۔ مثلاً اس معاملہ میں وہ حضرت ابراہیم کے اعلان کو الگ واقعے کی حیثیت سے دیکھیں گے، اور پھر رسول اللہ کےاعلان کو الگ واقعہ سمجھیں گے۔ پھر ان دونوں کو الگ الگ واقعہ سمجھ کر لکھنا اور بولنا شروع کردیں گے۔ یہ غیر علمی نقطہ نظر ہے، اور اکثر حالات میں یہی غیر علمی نقطہ نظر لوگوں کے لیے اصل بات کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔