22مئی 1985
ستمبر 1982میں میں نےشیخ سلیمان القائد (لیبیا)کے ساتھ حج کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔اس دوران مدینہ کا سفر ہوا تو مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، جس میں زیادہ تر ہندستانی طلبہ اور کچھ عرب طلبہ شریک تھے۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں جو لوگ حکومت اسلامی قائم کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، ان کی تحریک بالفرض کامیاب ہوجائے تب بھی وہ ناکام رہے گی۔ کیوں کہ حکومت کو چلانے کے لیے وہ تقویٰ کافی نہیں ہے، جو مسجد کی امامت یا مدرسہ کی معلمی کے لیے کافی ہوجاتاہے۔ حکومت کا ادارہ چلانے کے لیےجس صفت کی ضرورت ہے، وہ ہے تقویٰ پلس دانش مندی کی صفت ، اوریہ صفت آج کسی مسلم رہنما کے اندر موجود نہیں۔
اس پر ایک عرب نوجوان نے اعتراض کیا۔انھوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے اکابر کا نام لیا، اور کہا کیا آپ کا خیال ہے کہ ان کے اندر تقویٰ موجود نہیں۔ میں نے کہا کہ تقویٰ ہے ،مگر وہ عملی حکمت (practical wisdom) سے خالی تھے۔ وہ نوجوان اس کو سمجھ نہیں پائے، اورناراض ہوگئے۔
مجھے فوری طورپر ندامت ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے حکمت کے خلاف ایک بات کہہ دی۔ مگر بار بار کے تجربے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میری زبان سے جو بات نکلی تھی وہ بالکل صحیح بات تھی۔ موجودہ زمانے میں ہمارے تقریباً تمام قائدین کا یہی حال ہورہا ہے کہ ان کے پاس تقویٰ کا سرمایا تھا، مگر پریکٹکل وزڈم کا سرمایہ ان کے پاس نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ بڑے بڑے میدانوں میں کود پڑے اور بالآخر سراسر ناکام رہے ۔