17 جولائی 1985
شاہ محمد اسماعیل دہلوی (1779-1831)نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا تھا:
’’اس شہنشاہ (باری تعالی) کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کرورڑوں نبی و جن وفرشتے، جبرئیل او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کرڈالے۔
یہ کتاب چھپی تو علما کی ایک فوج اس کے رَدّ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ علامہ فضل حق خیر آبادی (1797-1861) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا امتناعِ نظر۔اس میں انھوں نے بتایا کہ مثل محمد ممتنع الوجود (ناممکن)ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف نبی تھے بلکہ خاتم الانبیا تھے، اور خاتم الانبیا کا مرتبہ کسی ایک ہی شخص کو مل سکتاہے۔ اس لیے مثلِ محمد مقدرِ حق سبحانہ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خاتم الانبیا کا مماثل (مانند)پیدا کرنے پر خدا قادر نہیں۔
اس پر مولانا حیدر علی رام پوری نے لکھا کہ ا بن عباس کا ایک اثر ہے جس کے مطابق اللہ نے سات زمینیں پیدا کی ہیں اور ہر زمین میں الگ الگ انبیاء ہیں(سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ) مستدرک الحاکم، اثر نمبر 3822۔ اس اثر سے استناد کرکے انھوں نے کہا کہ اللہ مثل خاتم الانبیا پیدا کرنے پر قادر ہے۔ کیوں کہ جب سات زمینیں ہیں تو سات خاتم الانبیا کی ضرورت ہوئی۔
مرزا غالب (1797-1869)نے ایک اور نکتہ نکالا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ عالم میں تو ایک خاتم الانبیا کے سوا دوسرا خاتم الانبیا پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن خدا اس پر قادر ہے کہ ایسا ہی ایک اور عالم پیدا کرے اور اس میں موجودہ عالم کے خاتم الانبیا کی طرح ایک اور خاتم الانبیا مبعوث فرمائے۔
اس طرح کی بحثیں برسہا برس تک جاری رہیں۔ دونوں طرف سے عجیب عجیب دلائل دیے جاتے رہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ زوال میں مسلمانوں کے ذہنی افلاس(intellectual dwarfism) کا حال کیا ہوگیا تھا۔ بے معنیٰ موشگافیوں کو وہ علم سمجھتے تھے اور بے فائدہ بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کو یہ سمجھتے تھے کہ وہ خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہیں۔