27جون 1985
اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں جو مسلمانوں کو معمولی سی لگتی ہیں۔ مگر غیر مسلم ان خصوصیات کو بڑے اچنبھے کی نظر سے ديكھتے ہیں۔
مثلاً اسلام میں ایک شخص بلا واسطہ خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔ ہم چوں کہ روزانہ مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں، ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک غیر مسلم جب دیکھتا ہے کہ نماز کا وقت آیا، اور مسلمان نے خدا کی طرف رخ کرکے اپنی عبادت شروع کردی۔ وہ کسی واسطہ کے بغیر براہِ راست اپنے خدا سے مربوط ہوگیا، تو اس کو یہ بات بہت زیادہ اسٹرائک(strike) کرتی ہے۔
اسی طرح اسلام میں ہر حکم کے ساتھ رعایتی دفعہ بھی شامل ہے۔ مثلاً وضو نہ کرسکوتو تیمم کرلو۔ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، وغیرہ۔ اسی قسم کی چیز ان لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں جنھوںنے دوسرے مذاہب کے ماحول میں پرور ش پائی ہے۔ کیوںکہ دوسرے مذاہب میں صرف ’’عزیمت‘‘ کے احکام ہیں، ان کے ہاں ’’رخصت‘‘ کے احکام نہیں۔
اسی طرح دوسرے مذاہب میں عبادتی مراسم (rituals) کی بھر مار ہے۔ ان مراسم میں معمولی فرق کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کی عبادت ہی ادا نہیں ہوئی۔
اس قسم کی سادگی جو اسلام میں ہے ،وہ اس کے ليے ایک زبردست تبلیغی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دور اول میں اسلام جو اتنی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا، اس کی کم از کم ایک وجہ یہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں لوگ اصراور اغلال کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان کو سیدھا سادھا فطری مذہب پیش کیا۔ وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑے۔
بد قسمتی سے بعد کے دور میں مسلمانوں نے بزعم خود اسلام کی تعلیمات کو مفصل اور جامع بنانے کے ليےاس میں اضافے شروع کیے۔ فقہی اضافے، کلامی اضافے، اعتقادی اضافے اور متصوفانہ اضافے۔ ان اضافوں نے اسلام کے اوپر ایک مصنوعی پردہ ڈال کر اس کو اس کی فطری کشش سے محروم کردیا۔