12اپریل 1985
ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان ہے: حسین اور انسانیت۔
مقالہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے قدموں سے لپٹنے کے ليے بے چین و بے قرار نظر آیا۔ پہاڑوں نے اپنے سینے کشادہ کرديے۔ دریا کی گہرائیاں پایاب ہوگئیں۔ بے قرار سمندر اس کے ليے خود ساحل بنانے لگے۔ آفتاب نے اس کی عظمت و بزرگی کے اعتراف میں اپنی روشنی پیش کردی کہ یہ انسان عظیم ہے۔‘‘
مقالہ اسی قسم کے الفاظ سے شروع ہوتاہے، اور اسی قسم کے الفاظ پر ختم ہوجاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اردو کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے اوپر شاعری کا غلبہ رہا۔چنانچہ نہ صرف نظم میں شاعری کی گئی، بلکہ نثر میں بھی یہی انداز جاری رہا۔ خطیبوں نے اپنی خطابت میں بھی یہی انداز اختیار کیا۔
اردو زبان میں یہ انداز اتنا زیادہ عام ہوا کہ زبان اور اس کے اسالیب اسی انداز میں ڈھل گئے، شاعرانہ انداز اظہار اردو پر بالکل چھاگیا۔چنانچہ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی خیال کو سادہ طور پر ادا کرنا چاہیں تو اردو میں اس کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ سائنٹفک اسلوب سادہ اسلوب ہے ۔ وہ حقیقت نگاری کا دوسرا نام ہے۔ مگر اردو اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے اس کے بالکل نا اہل ہوگئی کہ اس میں کسی بات کو سائنٹفک انداز سے بیان کیا جاسکے۔