11 جولائی 1985
میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تجربہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ خواہ اس کی غلطی کو کتنے ہی زیادہ قوی دلائل کے ساتھ واضح کردیا جائے۔
اس سلسلے میں میرے بہت سے تجربات ہیں۔ایک دل چسپ واقعہ وہ ہے، جو مولانا عامر عثمانی (وفات 1975) سے متعلق ہے۔ 1963 میں میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘چھپی تو لوگوں نے عامر عثمانی صاحب سے کہا کہ وہ اس کا جواب لکھیں۔ عامر عثمانی صاحب اکثر جماعت اسلامی کا دفاع کیا کرتے تھے، اور اپنے تفریحی انداز کی وجہ سے کافی پڑھے جاتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق ابتدامیں انھوں نے گریز کیا۔ مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو انھوں نے ایک لمبا مضمون لکھا جو 1965 کے آغاز میں ان کے رسالہ تجلی (فروری- مارچ 1965، صفحہ 99-124)میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا: مولانا وحید الدین خانصاحب کی تعبیر کی غلطی۔
یہ مضمون واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ عامر عثمانی صاحب اپنے آپ کو علم کے میدان میں عاجز پارہے ہیں۔ چنانچہ اس میں اصل نقطہ نظر کی علمی تردید کی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ مختلف انداز سے اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے جواب میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’تنقید یا مسخرہ پن‘‘ یہ مضمون اولاً ماہ نامہ نظام (کانپور) میں دسمبر 1965 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دوسرے جرائد میں نقل کیا گیا۔ میرے اس مضمون کی اشاعت کے بعد جناب عامر عثمانی مزید دس سال تک زندہ رہے۔ مگر وہ اس موضوع پر بالکل خاموش ہوگئے۔ پھر انھوں نے کبھی تعبیر کی غلطی کا رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔
البتہ اس کے بعد انھوں نے تجلی ( جولائی- اگست 1966)کا ’’حاصل مطالعہ نمبر‘‘ نکالا۔ اس میں انھوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سمیت متعدد شخصیتوں کی منتخب تحریریں شائع کیں اور ان پر تبصرے لکھے۔ مگر انھوں نے سب سے زیادہ شاندار ذکر راقم الحروف کا کیا۔ اس کتاب کا پہلا مضمون راقم الحروف کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ سے متعلق تھا اس کے اعتراف میں انھوں نے اپنے وہ آخری الفاظ صرف کردئے جو ان کے پاس موجود تھے۔
جناب عامر عثمانی صاحب کا یہ مضمون ’’پچاس فی صد اعتراف‘‘ کا ثبوت ہے۔ مگر افسوس کہ دوسروں میں اتنے اعتراف کی بھی جرأت نہیں۔