25 اکتوبر 1985
عہدِ وسطیٰ میں شہنشاہ اور پوپ کے درمیان جو جھگڑے ہوئے، ان میں ساری بحث اس پر تھی کہ حضرت عیسیٰ (یا خدا) نے دنیا کی حکومت پوپ کے سپرد کی ہے یا شہنشاہ کے، او راگر ان دونوں میں اختلاف ہو تو قوم کو کس کے حکم پر چلنا چاہیے۔
آج یہ بحث بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ کیوںکہ آج حکومت و سیاست کے معاملات میں نہ ’’مسیح“ کا دخل ہے اور نہ ’’پوپ‘‘کا۔ آج ان معاملات میں ساری حیثیت عوام کی مانی جاتی ہے یا عوام کے منتخب نمائندوں کی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانی حالات کتنا زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی فکر کی عمومی کامیابی کا انحصار تمام تر اسی پر ہوتا ہے کہ زمانی حالات اس کے موافق ہیں یا اس کے خلاف۔ آدمی اگر حکومت کے نظام میں تبدیلی لانا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اس کو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ حکومت کے نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
عہدِ وسطیٰ میں شہنشاہ اور پوپ کے درمیان جو جھگڑے ہوئے، ان میں ساری بحث اس پر تھی کہ حضرت عیسیٰ (یا خدا) نے دنیا کی حکومت پوپ کے سپرد کی ہے یا شہنشاہ کے، او راگر ان دونوں میں اختلاف ہو تو قوم کو کس کے حکم پر چلنا چاہیے۔
آج یہ بحث بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ کیوںکہ آج حکومت و سیاست کے معاملات میں نہ ’’مسیح“ کا دخل ہے اور نہ ’’پوپ‘‘کا۔ آج ان معاملات میں ساری حیثیت عوام کی مانی جاتی ہے یا عوام کے منتخب نمائندوں کی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانی حالات کتنا زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی فکر کی عمومی کامیابی کا انحصار تمام تر اسی پر ہوتا ہے کہ زمانی حالات اس کے موافق ہیں یا اس کے خلاف۔ آدمی اگر حکومت کے نظام میں تبدیلی لانا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اس کو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ حکومت کے نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔