28مئی1985
میرے مزاج میں بعض عجیب باتیں ہیں۔ یہ باتیں بچپن سے پائی جاتی ہیں۔ میں ہر چیز کو خود جاننا چاہتا ہوں۔میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ میں ’’گلاس‘‘ کو صرف اس لیے گلاس کہتا ہوں کہ میں نے خود دریافت کیا ہے کہ یہ گلاس ہے۔ میں کسی چیز کو صرف اس لیے نہیں مانتا کہ لوگ اس کو ایسا اور ایسا مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری زندگی کے عجیب عجیب واقعات ہیں۔
غالباً 1960 کی بات ہے۔ میں اپنے وطن (بڈھریا) میں تھا۔ اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے وہاں آیا تھا، اور پھر مجھے ریلوے اسٹیشن (پھریہا) سے ٹرین پکڑ کر اعظم گڑھ جانا تھا۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے مجھے آزادی تھی کہ جو چاہوں کروں۔میں نے دیکھا کہ ایک طرف ارنڈ کے کچھ بیج پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ ارنڈ دست آورہوتا ہے۔ مگر میں اپنے ذوق کے تحت اس پر راضی نہ تھا کہ صرف سن کر اسے مان لوں۔ چنانچہ میں نے ارنڈ کا چھلکا اتار کر اسے کھانا شروع کردیا، اور اس طرح بہت سی ارنڈ کھا گیا۔ اس کے بعد میں بڈھریا سے روانہ ہوا کہ پھریہا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر ٹرین پکڑوں۔
پھریہا ریلوے اسٹیشن ہمارے گھرسے تقریباً تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ میں نے ایک کیلومیٹر کا راستہ طے کیا تھا کہ پیٹ میں مروڑ شروع ہوئی۔اس کے بعد مسلسل دست آنے شروع ہوگئے۔ یہاںتک کہ میں کمزور ہو کر گر پڑا، اور اس قابل نہ رہا کہ ریلوے اسٹیشن پہنچ سکوں۔ مگر حسن اتفاق سے اس وقت ہمارا ملازم سردھن اہیر میرے ساتھ موجود تھا۔ وہ مجھے کسی طرح پھریہا ریلوے اسٹیشن تک لے گیا، اور ٹرین پر سوار ہو کر ہم اعظم گڑھ پہنچے۔اپنے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں بے شمار مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ مگر انھیں مصیبتوں کا یہ نتیجہ ہے کہ میں خدا کے فضل سے اپنے آپ کو ایک ایسا انسان سمجھتا ہوں، جو خود اپنی دریافت کردہ دنیا پر کھڑا ہوا ہو۔