14مئی 1985
قدیم زمانہ میں شرک اس طرح پیدا ہوا کہ لوگوں نے جس چیز کو بظاہر نمایاں دیکھا، اسی کو خدا سمجھ کر وہ اسے پوجنے لگے چاند سورج کی پرستش اسی طرح شروع ہوئی۔
اس اعتبار سے شرک، مظاہرِ کائنات کو سبب ِکائنات قرار دینے کا دوسرا نام ہے۔ مثلاً قدیم عرب میں شعریٰ کی پرستش ہوتی تھی، جس کا ذکر قرآن کی سورہ النجم (آیت 49) میں آیا ہے۔ شعریٰ (Sirius) دکھائی دینے والے ستاروں میں سب سے زیادہ روشن ستارہ ہے۔ وہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے، اور شمسی نظام سے اس کا فاصلہ آٹھ نوری سال سے زیادہ ہے۔ Sirius کا لفظ اصلاً یونانی زبان سے آیا ۔ جس کے معنی چمک دار کے ہوتے ہیں۔
قدیم زمانہ میں مصر اور دوسرے مقامات پر شعریٰ کی پرستش کی جاتی تھی، اور زمین کی شادابی اور تجارتی سرگرمیاں اس سے منسوب کی جاتی تھیں۔ قدیم عرب کا ایک شاعر اپنے ممدوح کے بارے میں کہتا ہے— وہ گرمی پہنچانے والا ہےٹھنڈی میں، یہاںتک کہ جب شعریٰ (موسم بہار میں) طلوع ہوتا ہے، تو وہ (لوگوں کے ليے) ٹھنڈک اور سایہ بن جاتا ہے:
شامس في القر حتى إذا ما
ذكت الشعرى فبرد وظل
میرا خیال ہے کہ قدیم شرک اور جدید الحاد دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ شرک کیا ہے۔ شرک مظاہرِ فطرت کو سببِ فطرت سمجھ کر اس کو پوجنا ہے۔ اسی طرح الحاد بھی مظاہر فطرت کو سبب فطرت سمجھ کر اس کو برتر قرار دینا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شرک نے جن مظاہر کو برتر سمجھا، وہ چاند، سورج، شعریٰ وغیرہ تھے۔ الحاد جس مظہرِ فطرت کو برتر قرار دے رہا ہے، وہ قانون فطرت (Law of Nature) ہے۔