18مئی 1985

شاعرانہ اسلوب کی ایک مثال ذیل کا یہ پیراگراف ہے:

دل کی اس آنچ کو کچھ کرنے اور روح کی پیاس بجھانے کے لیے ایک مسلمان کو اس کی ضرورت تھی کہ اس کے دل کا ساغر اور نگاہوں کا پیمانہ چھلک چھلک جائے۔ اس جام کی کیا قیمت جو بھرے لیکن چھلک نہ پائے۔ یہی نہیں اس کی بھی ضرورت تھی کہ یہ جام چھلک کر بہنے لگے اور دوری ومہجوری کی آگ میں جلے ہوئے دل کو سیراب کردے۔ وہ جام کیا جام ہے جو بھر کر چھلک تو جائے لیکن چھلک کر بہہ نہ پائے (صفحہ 295-96 )

یہ اسلوب شاعرانہ اسلوب دور ِتنزل کی پیداوار ہے۔ یہ اسلوب نہ دورِ نبوت میں تھا اور نہ وہ موجودہ زمانہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایرانیوں کے اثر سے بعد کے زمانہ میں پیداہوا۔ مگر مسلمان اہل قلم ابھی تک اسی میں گرفتار پڑے ہوئے ہیں۔

دور نبوت میں سادہ فطری اسلوب رائج تھا۔ اور بلاشبہ اپنی تاثیر کے اعتبار سے وہ بہترین اسلوب تھا۔ موجودہ زمانہ میں اسی فطری اسلوب نے علمی انداز اختیار کیا ہے اور اس کو سائنٹفک اسلوب کہاجاتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسلمان مصنفین موجودہ زمانہ میں اس کو اختیار نہ کرسکے۔

گل وبلبل، فراق ووصال اور جام ومینا کی اصطلاحوں میں کلام کرنا علمی ذوق کے خلاف بھی ہے، اور جدید اسلوب کلام سے دوری بھی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom