20فروری 1985
مولانا اسعد اسرائیلی سنبھل کے رہنے والے ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی، اور دورانِ گفتگو ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر ہوا۔ وہ الرسالہ کے اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں کہ یہ فسادات صحت مند سماجی رشتہ کو مجروح کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا:
’’فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمان نہیں مرتے، جو چیز مرتی ہے، وہ دعوتِ حق کا امکان ہوتا ہے‘‘۔
ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑا ہے، اس میں مسلمان صرف اپنے مادی نقصانات کا رونا روتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان معتدل فضا ختم ہوگئی ہے، اور معتدل فضا کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔ دعوت یعنی خدا کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کا عمل۔
اگر مسلمانوں کے اندر دعوت کا درد ہو، تو وہ ہندوؤں سے اپنے تمام مادی جھگڑے یک طرفہ طورپر ختم کردیں گے۔ وہ اپنے اور ہندوؤں کے درمیان انسانی خیرخواہی کا رشتہ بحال کرنے کے ليے ہرقربانی کو آسان سمجھیں گے۔