20مئی 1985
ایک سیکولر آدمی نے اسلام کی سادگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں مسلم محلہ میں رہتا ہوں۔ وہاں ایک مسجد ہے۔ میں دیکھتا تھا کہ جو مسلمان بھگوان کی عبادت کے لیے آتا ہے وہ وضو کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتاہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کو خدا تک پہنچنے کے لیے کسی درمیانی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس، دوسرے مذاہب میں کسی پریسٹ یا پادری کا ذریعہ اختیار کیے بغیر کوئی شخص خدا کی عبادت نہیں کرسکتا۔
یہ بات بہ ظاہر سادہ سی ہے مگر نہایت اہم ہے۔ انسان فطری طور پر خدا کو پانا چاہتاہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دینا چاہتاہے۔ مگر دوسرے مذاہب میں بگاڑ کی وجہ سے یہ حال ہوگیا ہے کہ آدمی جب دوسرے عبادت خانوں میں جاتا ہے تو وہاں وہ پاتا ہے کہ کلرجی (clergy) کے بغیر وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا، اور نہ اس کے بغیر وہ خدا کی عبادت کرسکتا۔ اس طرح اس کو اپنے جذبۂ پرستش کی پوری تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ اسلام میں یہ صورت حال نہیں ۔ اسلام میں ہر آدمی براہِ راست خدا کو پکارسکتا ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے، جس کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے۔ موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی اپنے آپ کو دوسرے کے برابر سمجھتا ہے۔ اس زمانی مزاج کی وجہ سے لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آتی ہےکہ کوئی طبقہ ان سے اوپر ہو۔ لوگ جس مقام پر خود ہیں ،وہیں وہ کلرجی کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات آج صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔اس طرح اسلام انسانی فطرت کے مطابق بھی ہوجاتا ہے، اور وقت کے تقاضے کے مطابق بھی۔