30 جولائی 1985
ایک عربی میگزین میں یہ عبارت نظر سے گزری:دخل اعرابی علی بخیل فوجدہ یأکل خبزاً وعسلاً فأخفی الخبز فی حجرہ ولم یدعہ لتناول الطعام معہ. فما کان من الاعرابی الا ان تقدم الی اناء العسل وأخذ یأکل بلا خبز ۔ فقال لہ البخیل:ان العسل وحدہ یحرق القلب فأجابہ الأعرابی:نعم، ولکن قلبک لاقلبی۔یعنی ایک دیہاتی آدمی ایک بخیل کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا کہ بخیل روٹی اور شہد کھارہا ہے۔ بخیل نے روٹی کو اپنی گود میں چھپا لیا اور دیہاتی کے لیے نہیں چھوڑا کہ وہ اس کے ساتھ کھاسکے۔ دیہاتی نے یہ کیا کہ وہ شہد کے برتن کی طرف بڑھا اور اس کو روٹی کے بغیر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر بخیل نے اس سے کہا کہ خالی شہد کھانا دل کو جلاتا ہے۔ دیہاتی نے جواب دیا، ہاں وہ جلاتا ہے، مگر وہ تمھارے دل کو جلاتا ہے، نہ کہ میرے دل کو۔
ممکن ہے کہ یہ واقعہ نہ ہو بلکہ محض لطیفہ ہو، قدیم زمانہ تمثیلات کا زمانہ تھا۔ لوگ اپنی باتوں کو کہانی کے روپ میں بیان کیا کرتے تھے۔ گمان غالب یہ ہے کہ کسی شخص نے ’’بخیل‘‘ کے کردار کو نمایاں کرنے کے لیے یہ قصہ گھڑا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلا دیا۔
اخلاقی درس کی حد تک یہ بناوٹی قصے درست تھے۔ مگر اس کے بعد اپنے بڑوں کی بڑائی اور بزرگی ظاہر کرنے کے لیے طلسماتی قصے کہانیاں گھڑے جانے لگے۔ یہاں آکر یہ طریقہ سراسر غلط ہوگیا۔ کیوں کہ ان جھوٹے قصوں نے یہ تصور دیا کہ ’’بزرگ ایسے ہوتے ہیں‘‘ ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان ایسا ہوتا ہی نہیں، اور نہ کوئی بزرگ کسی قسم کے بزرگی اور کرامات کے ساتھ پیدا ہوتاہے۔ مگر فرضی تصویر لوگوں کے لیے حقیقی تصویر بن گئی۔