15 جولائی 1985
دورِ اول کے مسلمانوں کی اٹھان تواضع (modesty) پر ہوئی تھی، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اٹھان فخر (pride)پر ہوئی ہے — ایک لفظ میں یہی وہ فرق ہے جس نے دورِاول کے مسلمانوں اور موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے درمیان وہ فرق پیدا کردیا ہے، جس کو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔دورِ اول کے مسلمانوں کا آغاز خدا کی دریافت سے ہوا تھا۔ انھوں نے خدا کی عظمت وکبریائی کو اپنے دل و دماغ میں اتارا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہ سراپا تواضع بن گئے تھے۔ ان کا سینہ ذاتی بڑائی کے احساس سے آخری حد تک خالی تھا۔
اس کے برعکس، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں دو بیماری اپنے ’’شاندار‘‘ ماضی کی دریافت سے آئی ہے۔ ایک، شبلی نے انھیں ’’ہیروان اسلام‘‘ کا تعارف کرایا۔دوسرا، اقبال نے ان کوماضی کی عظمت کے حصول کے لیے آفاقی بلند پروازی کا درس دیا۔ اسی طرح ہر ایک ماضی کی عظمتوں کو یاد دلا کر ان کے اندر جوش ابھارنے کی کوشش کرتا رہا۔ دورِ اول کے مسلمان ’’خدا کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان ’’اپنی تاریخ کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں۔
یہی وہ بنیادی بات ہے جس نے دونوں گروہوں کی سوچ میں فرق پیدا کردیا ہے۔ دورِ اول کے لوگوں کو خدا کی عظمت کے احساس نے تواضع کا ذہن دیا تھا۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو تاریخ کی عظمت کے احساس نے فخر کا ذہن دیا ہے۔ تواضع کا ذہن تمام خوبیوں کا سر چشمہ ہے، اس کے مقابلہ میں جھوٹا فخر (false pride) تمام خرابیوں کا سر چشمہ۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصلاح کا مقام آغاز یہی ہے کہ ان کے اندر سے جھوٹے فخر کا مزاج ختم کیا جائے اور دوبارہ ان کے اندر تواضع کا مزاج پیدا کیا جائے۔