3جون 1985
موجودہ دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ آزاد خیالی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مفکرین آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کہتے ہیں۔مگر یہی سب سے بڑا خیر سب سے بڑا شر بن گیا ہے۔ آزادی کے اس تصور نے انسان کو بالکل بے قید بنا دیا ہے۔ وہ کسی قسم کی اخلاقی پابندی کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو اضافی پابندیوں سے آزاد سمجھ لیں وہ جنگل کے جانوروں سے بھی زیادہ برے بن جاتے ہیں۔
آزادی کے نام پر پیدا شدہ اس بگاڑ کا سب سے زیادہ برا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے۔مسلمان اپنی قدیم تاریخ کے نتیجہ میں جھوٹے فخر کی نفسیا ت میں مبتلا تھے۔ جدید دور کی بے قید آزادی نے ان کے فکری زوال میں دُگنا اضافہ کردیا— آزاد خیالی اور پُر فخر نفسیات۔ یہ دونوں چیزیںجب یکجا ہوجائیں تو برائی اس آخری حد پر پہنچ جاتی ہے جس کے آگے اس کی کوئی اور حد نہیں۔