21 دسمبر1985
ہر بات کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔ اگر عقل کو استعمال نہ کیا جائے تو کوئی بات بھی سمجھ میں نہیں آسکتی، حتی کہ قرآن وحدیث کی بات بھی نہیں۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ قَالَهَا ثَلَاثًا(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2670)۔ یعنی شدت کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ یہ بات تین بار فرمائی۔
اگر ان الفاظ کو سادہ طورپر بالکل ظاہری معنی میں لے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہر چیز جس میں شدت کا پہلو ہو وہ ہلاکت کا سبب ہے، اس لیے اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ مثلاً گرمی کے موسم میں روزہ رکھنا۔ مہنگائی کے وقت جانور کی قربانی دینا، وغیرہ۔ مگر حدیث کا یہ مطلب نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کو صحیح طورپر سمجھنے کے لیے اس میں ایک لفظ کا اضافہ کرنا ہوگا۔ یعنی اس کو اس طرح کہنا ہوگا:’’هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ‘‘ ای المشددون فی غیر موضع التشدید ( وہ لوگ ہلاک ہوگئے جو شدت نہ کرنے کی جگہ پر شدت کا طریقہ اختیار کرتے ہیں)۔