15 نومبر 1985

 ظن (گمان)کا مطلب ہوتا ہے کسی کے بارے میں کوئی خاص رائے رکھنا، ذہن میں کسی کے بارے میں  کوئی امیج بنانا، خواہ وہ اچھا ہو یا برا :

To have a particular opinion about something or someone, to have a picture in the mind.

انسان کو اپنے خالق کے بارے میں اچھاگمان رکھنا چاہیے۔ اس تعلق سے مختلف احادیث میں رہنمائی کی گئی ہے۔ مثلاً ایک حدیثِ رسول یہ ہے:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2675، مسند احمد، حدیث نمبر 10782)۔ یعنی  ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے پاس ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتاہے۔

دوسری روایتوں میں کچھ مختلف الفاظ آئے ہیں۔ چند الفاظ یہ ہیں:

(1) أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ (مسند احمد، حدیث نمبر 16016)۔ یعنی میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔ پس وہ جیسا چاہے میرے بارے میں گمان کرے۔

(2) أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2675)۔ یعنی میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں، اور میں اس کے ساتھ ہوں، جب وہ مجھ کو پکارے۔

(3)  أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنَّ ظَنَّ خَيْرًا فَخَيْرٌ، وَإِنَّ ظَنَّ شَرًّا فَشَرٌّ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 401)۔ یعنی میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کےپاس ہوں۔ اگر اس نے اچھا گمان کیا تو خیر ہے، اور اگر اس نے برا گما ن کیا تو برا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom