23 نومبر 1985
قرآن میں ایک سے زیادہ مقام پر یہ بات کہی گئی ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے ( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ )26:196۔
اس قسم کی آیات کے تحت یہ بحث چھڑ گئی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیوں کہ قرآن میں بہت سے الفاظ غیر عربی ہیں۔ کسی نے کہا کہ قرآن میں 27 الفاظ غیر عربی ہیں۔ کسی نے اس کی گنتی 60 تک پہنچا دی۔ مثلاً حسب ذیل الفاظ:
سَلْسَبِيل، كَوْثَر، سِجِّيل، كَافُور، قَرَاطِيس، رَقّ، مِشْكَاة، سُرَادِق، سُنْدُس، إِسْتَبْرَق،قَسْوَرَة، فِرْدَوْس، تَّنُّورُ ، زَنْجَبِيل، عَبْقَرِيّ ِ، وغیرہ۔
علما کی بڑی تعداد اس طرف گئی کہ جب قرآن کا یہ دعوی ہے کہ وہ عربی زبان میں ہے تو اس میں غیر عربی الفاظ نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ مذکورہ قسم کے فارسی، رومی، حبشی، نبطی، ہندی وغیرہ الفاظ کی موجودگی کی عجیب عجیب تاویلیں کی گئیں۔ مثلاً کہا گیا کہ یہ الفاظ اصلاً عربی ہی کے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ عربی زبان سے مخفی ہوگئے۔ پھر قرآن نے دوبارہ ان کو عربی میں داخل کیا۔
یہ سب غیر ضروری تاویلات ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ زبان وہی رہتی ہے۔ مثلام ٹامس پائلز (Thomas Pyles) کی ایک کتاب ہے جس میں اس نے انگریزی زبان کے آغاز و ارتقا سے بحث کی ہے۔ اس کا نام ہے:
The Origins and Development of the English Language
اس کتاب میں اس نے ہندی، لاتینی، فرانسیسی، روسی، جرمن وغیرہ زبان کے بہت سے الفاظ کی فہرست دی ہے جو انگریزی میں مستعمل ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ الفاظ اگرچہ ابتدا میں دوسری زبانوں کے تھے۔ مگر جب وہ انگریزی میں شامل ہوگئے تو وہ انگریزی ہوگئے، اور انگریزی پھر بھی انگریزی رہی:
But English remains English.