6مارچ 1985
حدیث میں آیا ہے:إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3666)۔ یعنی اولاد بخل اور بزدلی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ اور زیادہ صحیح ہوگئی ہے۔ قدیم زمانہ میں اسباب حیات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ اس ليے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی کم تھے۔ اب اسباب حیات بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس ليے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
مکان، فرنیچر، لباس اور د وسرے ساز وسامان جتنے آج ہیں، اتنے کبھی نہیں تھے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی تعمیر کے جو امکانات آج کھلے ہیں، وہ پہلے کبھی نہیں کھلے تھے۔ چنانچہ ہر آدمی انھیں امکانات میں کھویا رہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین معیار زندگی کا حامل بنانا چاہتا ہے۔
یہ جذبہ آدمی کو دین کے معاملے میں بخیل اور بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے مال کو بچاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ بچوں کے مستقبل کو سنوارے۔ وہ اپنے وجود کو ہر خطرہ کے مقام سے دور رکھتا ہے ،تاکہ بچوں کے بارے میں اس کا منصوبہ نامکمل نہ رہ جائے۔