6جون 1985
ایک مرتبہ میں علی گڑھ گیا۔ وہاںمیری ملاقات ایک ’’ریٹائرڈ پروفیسر‘‘ سے ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے انگریزی زبان میں ایک تفسیر لکھی ہے۔ آپ اس کی اشاعت کا انتظام کیجیے۔گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کیا آپ عربی زبان جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا جب آپ عربی زبان نہیں جانتے تو آپ نے قرآن کی تفسیر لکھنے کی ذمہ داری کیوں لے لی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ انھوں نے کہا کیا قرآن کی تفسیر لکھنا صرف مولویوں کی اجارہ داری ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے مولویوں کو قرآن کی تفسیر لکھنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے، وغیرہ۔
مسلمانوں کا عجیب مزاج ہے۔ ان کا ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں ہر کام کرنے کا اہل ہوں۔ وہ نہایت آسانی سے ایک ایسا کام شروع کردیتا ہے، جس کے لیے ضروری علمی لیاقت اس کے اندر موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان بے شمار کتابیں لکھ لکھ کر چھاپ رہے ہیں، مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میں واقعۃً قابل مطالعہ مواد پایا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کو بے کار نہیں بنایا۔ ہر آدمی کسی خاص کام کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرسکے، بڑا کام شہرت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہے۔ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو جانے۔ وہ بے لاگ غور وفکر کے ذریعہ اس بات کو دریافت کرے کہ اس کو خدا نے کسی خاص کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ محنت کا ہے۔
اپنے لیے صحیح ترین میدان کا تعین اور اس میدان میں مکمل جدوجہد، ان دو شرطوں کو پورا کیے بغیر ایک شخص کوئی قابل لحاظ کام نہیں کرسکتا۔ جو شخص اپنی زندگی کو کارآمد بنانا چاہتاہو اس پر لازم ہے کہ وہ ان دو شرطوں کو پورا کرے۔