19 اگست 1985
کچھ عباسی خلفا، معتزلی متکلمین کے اثر سے، قرآن کو مخلوق کہتے تھے۔ چنانچہ جولوگ قرآن کو غیرمخلوق کہتے ان کو انھوں نے سخت سزائیں دیں۔ مثلا ًامام احمد بن حنبل (164-241ھ) وغیرہ۔
اس فتنہ کو ختم کرنے میں جن اسباب کا دخل ہے، ان میں بعض لطائف بھی شمار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ فتنہ خلیفہ واثق کے زمانہ میں ختم ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ خلیفہ واثق عباسی کے زمانہ میں ایک ظریف شخص تھا۔ وہ دربار میں لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا۔ ایک روز مذکورہ ظریف دربار میں آیا اور سلام کے بعد سنجیدگی کے ساتھ کہا — اے امیر المومنین، قرآن کی موت پر اللہ آپ کو بڑا اجر دے ( يا أمير المؤمنين، أعظم الله أجرك في القرآن)۔
خلیفہ نے حیران ہو کر کہا کہ تمھارا برا ہو، قرآن پر بھی کہیں موت آتی ہے (ويلك،القرآن يموت)۔ ظریف نے دوبارہ سادگی کے ساتھ جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین ہر مخلوق مرے گی ( يا أمير المؤمنين، كل مخلوق يموت)۔
اس کے بعد ظریف نے مزید کہا کہ مجھے بڑی فکر اس بات کی ہے کہ قرآن کی موت پر مسلمانوں کی تراویح کا کیا ہوگا۔ خلیفہ واثق اس کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ اس نے کہا کہ ٹھہر، خدا تجھے ہلاک کرے ( قاتلك الله، أمسك) الطبقات السنية في تراجم الحنفية،صفحہ 90۔
تا ہم یہ لطیفہ خلیفہ واثق پر بہت اثر انداز ہوا۔ وہ سابق خلفا کی طرح اس معاملہ میں زیادہ شدید نہ تھا۔ اب اس کا باقی ماندہ جوش بھی ختم ہوگیا اور خلیفہ کے ٹھنڈا پڑنے سے سارے ملک میں یہ مسئلہ ختم ہوگیا۔ کبھی ایک لطیفہ سے وہ کام ہوجاتا ہے، جو دلائل سے نہ ہوسکا تھا۔