15جون 1985
مسلمانوں نے پچھلے دو سو برس کے اندر کوئی بھی ٹھوس تعمیری کام نہیں کیا۔ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا مسئلہ عقلی نقطۂ نظر کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ میں عقلی نقطۂ نظر نے ایک فکری انقلاب پیدا کیا ہے۔ اس انقلاب نے دینی عقائد کو دور جاہلیت کی چیز قرار دے کر ان کو تاریخ کے خانہ میں ڈال دیا۔ یہاں ضرورت تھی کہ مسلمان اٹھیں اور دینی عقائد اور تعلیمات کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم کریں۔ مگر اس پوری مدت میں منفی ہنگاموں کے سوا مسلمان اور کچھ نہ کرسکے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمانے میں تبدیلی واقع ہوئی اور دینی عقائد کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے۔ مگر یہ کام تمام تر عیسائی اور یہودی علماء نے انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ایک فی صد حصہ بھی نہیں۔جدیدسائنس نے خدا کو کائنات کے نقشہ سے حذف کردیا تھا۔ اب دوبارہ خدا کائنات کے نقشہ میں نظر آرہا ہے مگر اس عمل کو انجام دینے والے وہ لوگ ہیں، جن کے نام جیمز جینز اور اڈنگٹن جیسے ہیں۔
یہی معاملہ تمام دینی تعلیمات کا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ دنیا میں دوسرے الہامی مذاہب (عیسائیت، یہودیت) بھی موجود تھے۔ اسلام اور ان مذاہب کے درمیان تعلیمات اور تاریخی شخصیتوں کا اشتراک ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی تعلیمات اور اپنی تاریخ کو عقلی اور سائنسی طورپر معتبر ثابت کرنے کے لیے جو تحقیقات کیں اس کا فائدہ بالواسطہ طورپر اسلام کے حصہ میں بھی آگیا۔ مثلاً علم الآثار کی تحقیق جس نے قرآن میں مذکور اقوام اور شخصیتوں کو تاریخ کی روشنی عطا کی۔
نظریۂ ارتقا کی تردید، جس نے خالق کے عقیدہ کو دوبارہ بحال کیا۔ عورت اور مرد کے درمیان حیاتیاتی فرق کو ثابت کرنا جس نے خاندان کے بارے میں اسلامی قوانین کو دوبارہ اعتباریت (credibility) عطا کی۔ حتی کی اسلام کی قدیم عربی کتب کو مخطوطات کے دور سے نکال کر مطبوعات کے دورمیں داخل کرنا بھی انھیں عیسائیوں اور یہودیوں کا کارنامہ ہے۔ غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ جس زبان میں اعلیٰ لٹریچر موجود ہے، وہ انگریزی زبان ہے۔ اس سلسلہ کی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کی مستند کتاب ،سیرت ابن ہشام کا مکمل ترجمہ پہلے انگریزی میں ہوا اور اس کے بہت دیر بعد کسی مسلم زبان میں۔