5 دسمبر 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت ام ہانی کے گھر گئے۔ پوچھا کہ کچھ کھانے کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا کہ سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا اورسرکہ ہے( كِسَرٌ يَابِسَةٌ وَخَلّ)۔ آپ نے فرمایا: جس گھر میں سرکہ ہو اس کوسالن کے معاملے میں غریب نہیں کہا جاسکتا (فَمَا أَقْفَرَ بَيْتٌ مِنْ أُدْمٍ فِيهِ خَلٌّ)سنن الترمذی، حدیث نمبر 1841۔ اس کے بعد آپ نے سرکہ اور روٹی نہایت شوق کے ساتھ کھایا۔
اسی طرح مختلف روایتوں میں مختلف کھانوں کے بارے میں آپ کی پسندیدگی کا ذکر ہے— مثلاً سرکہ، شہد، روغن زیتون، حلوہ، کدو، گوشت، ککڑی، لوکی، کھچڑی، دودھ، مکھن، کھجور، وغیرہ۔
اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ آپ کے پسندیدہ کھانوں کی فہرست میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جو اس وقت کے مدینہ میں رائج تھیں۔ اگر اس سلسلہ کی مختلف روایتوں کو جمع کیا جائے تو رائج کھانوں میں سے کوئی بھی چیز نہیں بچے گی، جو آپ کے مرغوب کھانے کی فہرست میں شامل نہ ہو۔
پھر اگر آپ کو ہر کھانا پسند تھا تو وہ کون سا کھانا ہے جو آپ کو پسند نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ کا معاملہ ہی نہیں۔ آپ کے اس قسم کے تمام کلمات میزبانوں کی حوصلہ افزائی کے کلمات ہیں۔ اس وقت مدینہ میں کھانے کے سامان کی کمی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جہاںآپ جاتے اس کے یہاں کوئی ایک سالن ہوتا تھا۔ میزبان شرمندگی کے ساتھ ’’جو کھانا موجود ہو‘‘، وہ لے آتا۔ آپ شرافت کے تقاضے کے تحت فرماتے کہ یہ تو بہترین کھانا ہے، اور پھر شوق سے اس کو کھانے لگتے۔ اس طرح کے تمام کلمات میزبان کی حوصلہ افزائی کے کلمات ہیں، نہ کہ کھانے کے بارے میں اپنی پسندیدگی بتانے کے کلمات۔