18 دسمبر 1985
’’اس ملک میں عربی اور فارسی کو کلاسیکی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ حکومت ان کی ترقی پر کافی رقم خرچ کرتی ہے۔ یہاں کی تقریباً 20 یونی ورسٹیوں میں عربی کا شعبہ موجود ہے۔ ایسے کالجوںکی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہے، جہاں عربی تعلیم کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بہت بڑے بڑے دار العلوم (بالفاظ دیگر دینی مدارس) قائم ہیں۔ ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے۔ وہ کامل آزادی کے ساتھ عربی زبان اوردینی علوم کی اشاعت کا کام کررہے ہیں۔ حکومت کے خرچ پر ایک عربی ماہ نامہ شائع ہوتا ہے۔ ریڈیو میں عربی کا پورا یونٹ قائم ہے۔ یہاں کی وزارتِ تعلیم عربی مدارس کو معقول امداد دیتی ہے۔ ان مدارس میں رہ کر کوئی شخص کسی عربی مخطوطہ کو ایڈٹ کرنا چاہے یا کسی عربی موضوع پر ریسرچ کرنا چاہے تو اس کو تین سو روپیہ ماہوار کا وظیفہ دو سال تک دیا جاتاہے۔ عربی اور فارسی کے دو دو ممتاز عالموں کو حکومت ہر سال سند امتیاز دیتی ہے۔‘‘
اوپر کی عبارت ایک اقتباس ہے۔ یہ باتیں اگر یورپ کے کسی ملک کے بارے میں کہی جائیں تو مسلمانوں کو بہت اہم معلوم ہوگی۔ مگر مسلمانوں کو یہ باتیں اس وقت بے وقعت معلوم ہونے لگتی ہیں، جب انھیں بتایا جائے کہ یہ ہندستان کی بات ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب یورپ یا امریکا جاتا ہے تو وہاں وہ بالکل غیر مزاحم (passive)بن کر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وہاں کے مواقع سے فائدہ اٹھا پاتا ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھ لیتاہے۔ مگر ہندستان میں مسلمان شکایت اور احتجاج کے ذہن کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں انھیں طرح طرح کی مشکلوں سے سامنا پیش آتا ہے۔ وہ ہندستان کے مواقع کی قدر کرنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔