20مارچ 1985
راجہ رام موہن رائے (1772-1833) مشہور ہندو مصلح ہیں۔ انھوں نے سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ وہ سائنسی تعلیم (science-oriented education) کے حامی تھے۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823 میں انگریز گورنر جنرل لارڈ ام ہرسٹ (Lord Amherst) کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہم کو سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹمی اور دوسری جدید سائنسي تعلیم کا انتظام ہو۔
راجہ رام موهن رائے کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی عرصہ تک مسلمانوں میں کوئی بھی قابلِ ذکر آدمی نظر نہیں آتا، جس نے جدید دور میں سائنس کی اہمیت کو سمجھا ہو، اور اس کی تعلیم پر اس طرح زور دیا ہو۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دور میں مسلمانوں میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو اتنا تعلیم یافتہ ہوجیسا کہ راجہ رام موہن رائے تھے۔ راجہ رام موہن رائے کے سکریٹری (Sandford Arnot) نے لکھا ہے کہ وہ کم ازکم 11 زبانوں سے واقف تھے— سنسکرت ، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، انگریزی، عبرانی، لاطینی، فرانسیسی، اردو، یونانی۔
ان کی پہلی کتاب کانام تحفۃ الموحدین ہے۔ اس کا دیباچہ عربی میں ہے، اور اصل کتاب فارسی میں ہے۔ انھوں نے پہلی بار ویدوں اور اپنشدوں کا انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔ 1816 میں انھوں نے بنگال گزٹ نکالا، جو کسی ہندستانی کی ملکیت میں نکلنے والا پہلا انگریزی اخبار تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے فارسی میں بھی ایک اخبار جاری کیا۔ لال قلعہ کے مغل بادشاہ کو اپنے وظیفہ کی رقم کے سلسلہ میں ایک سفارت انگلستان بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت مغل تاجدار نے جس ہندستانی کا انتخاب کیا، وہ راجہ رام موہن رائے تھے۔چنانچہ وہ 1830 میں اس مشن کے تحت انگلستان گئے۔
ہندو قوم کو اٹھارھویں صدی میں راجہ رام موہن رائے جیسا آدمی مل گیا۔ اس ليے وہ فوراً سائنس کی تعلیم میں داخل ہوگئی۔ مگرمسلمانوں کو پچھلے دو سو برس میں بھی غالباً کوئی ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ نہیں ملا۔ ایسی حالت میں مسلمان اگر جدید تعلیم میں پیچھے ہیں تو یہ عین وہی بات ہے، جو واقعہ کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔