18 نومبر 1985
ایک انسان جب گاڑی کو چلاتا ہے تو اس کا نام بھی چلنا ہے، اور اگر گاڑی کا انجن چلا کر اسے چھوڑ دیں تب بھی وہ دوڑے گی اور اس کو بھی چلنا کہا جائے گا۔ مگر حقیقت میں چلنا وہی ہے جب کہ انسان گاڑی کو چلا رہا ہو(یا ایسی گاڑی ہو جو آٹو پائلٹ (autopilot) سسٹم سے لیس ہو، جس کو سیلف ڈرائیونگ کار کہا جاتا ہے)۔ کیوں کہ انسان گاڑی کو چلانے کے ساتھ اس کو روکنا بھی جانتا ہے۔ وہ آگے بڑھانے کے ساتھ اس کوموڑنا بھی جانتا ہے۔ جب کہ ڈرائیور کے بغیر جوگاڑی ہو وہ صرف سیدھی دوڑتی رہے گی، یہاں تک کہ کہیں ٹکرا کر ختم ہوجائے گی۔
یہی معاملہ زندگی کے سفر کا ہے۔ زندگی میں کبھی بولنا ضروری ہوتا ہے اور کبھی چپ رہنا۔ کبھی ضرورت ہوتی ہے کہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف ہٹ جائیں۔ کبھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنی شرطوں پر اصرار نہ کیا جائے بلکہ دشمن کی شرطوں کو مان لیا جائے۔
زندہ لوگ باڈرائیور گاڑی کی طرح ہیں اور مردہ لوگ بے ڈرائیور گاڑی کی طرح۔ اس دنیا میں صرف زندہ لوگوں کا سفر کامیابی پر ختم ہوتا ہے۔ مردہ لوگوں کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ یک طرفہ طورپر دوڑتے رہیں، یہاں تک کہ کسی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہوجائیں۔