7 اکتوبر 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے حکم سے کئی مؤذنوں کی تقرریاں ہوئی تھیں۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت بلال ان مؤذنوں کے صدر تھے۔ جب کوئی حکم ہوتا تو حضرت بلال کے واسطے سے تمام دوسرے لوگوں کو اس سے آگاہ کردیا جاتا۔ مثلاً ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: أَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ (سنن النسائی، حدیث نمبر 627) ۔ یعنی آپ نے بلال کو حکم دیا کہ وہ اذا ن میں تشفیع کرے اور اقامت میں ایتا ر کرے۔
اس قسم کی روایتوں کا مطلب احناف اس طرح بتاتے ہیں :أن يكون المراد من أن يشفع الأذان:بالصوت، فيأتي بصوتين صوتين، ويوتر الإقامة في الصوت (تجرید القدوری، جلد1، صفحہ419)۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اذان میں شفع کرے، اس کو دو دو (اونچی) آواز میں ادا کرے، اور اقامت کو اکہرے (نیچی) آواز میں ادا کرے۔ فمحمول على إيتار صوتها بأن يحدر فيها ...لا إيتار ألفاظها(البحر الرائق، جلد1، صفحہ447)۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ اس کی آواز میں ایتار ہو، یعنی وہ اقامت میں جلدی جلدی پڑھے، نہ کہ الفاظ میں ایتار (ایک ایک مرتبہ)۔اس کے برعکس شوافع وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہاں تشفیع اور ایتار کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات دوبار ادا کیے جائیں اور اقامت کے کلمات ایک بار— حدیث میں تعمق اورتدقیق (hair-splitting) نے کیسے عجیب عجیب اختلافات پیدا کردیے ہیں۔