9 جولائی 1985
سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ قوانین فطرت کے باب میں حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ملے:
وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں اور دونوں صنفوں کو ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ پھولوں کی خوشبو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شب ماہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ داعیات صنفی کو حرکت میں لانے کاسبب نہ بنتا ہو۔
مصنف نے یہ بات اپنے خیال سے اچھے معنی میں لکھی اور اس سے اچھا معنی نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگرمیں نے اس کو پڑھا تو مجھے اپنے ذوق کے مطابق فطرت کا یہ حوالہ کچھ پسند نہیں آیا۔فطرت کے مناظر بے حد پرکشش ہیں۔ وہ آدمی کے اندر زبردست جذبہ ابھارتے ہیں۔ مگر اس معنی میں نہیں جس معنی میں مصنف نے لکھا ہے۔
مجھے فطرت کے مناظر بے حد پسند ہیں۔ میں گھنٹوں انھیں دیکھتا رہتا ہوں مگر مجھ کو یاد نہیں کہ میرے اندر مذکورہ بالا قسم کا جذبہ ابھرتا ہو۔ مجھ کو فطرت کے مناظر میں خدا کا جلوہ نظرآتا ہے۔ فطرت کو دیکھ کر مجھے خدا کی یاد آتی ہے۔شاعروں اور افسانہ نگاروں نے ضرور فطرت کو مذکورہ انداز میں پیش کیاہے۔ مگر یہ فطرت کا کمتر اندازہ ہے۔ فطرت کا اعلیٰ استعمال یہ ہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر اس کے خالق کو یاد کرے۔ آدمی فطرت کے حسن کو دیکھے تاکہ یہ اس کے لیے ایک آئینہ بن جائے جس میں اس کو خالق کا چہرہ نظر آتا ہو۔