30 نومبر 1985
تقریر یا تحریر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اندر وضوح (clarity) ہو، یعنی اُس کو سننے یا پڑھنے کے بعد مقرر یا محرر کا مدعا بلا اشتباہ سمجھ میں آجائے۔ جب آدمی کو گہری دریافت نہ ہو تو اس کے کلام میں کلیرٹی نہیں پائی جائے گی، وہ کبھی ایک بات کرے گا، اور کبھی اس کے خلاف بات۔مثال کے طور پر انور صابری (1901-1985)کا ایک شعر ہے:
تم شور وہنگامہ نہ بنو بن جاؤ رات کا سناٹا جو بڑھتے بڑھتے بڑھتا ہے اور دنیا پر چھا جاتا ہے
بظاہر اس شعر کے اندر ایک گہری بات کہی گئی ہے۔ مگر کوئی گہری بات اسی وقت مفید ہوتی ہے جب کہ وہ گہرے شعور کے تحت نکلی ہو۔ انور صابری کے کلام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کا یہ شعر محض شاعرانہ جذبات کے تحت نکلا ہے، نہ کہ فی الواقع کسی گہری دریافت کے تحت۔ چنانچہ ایک طرف انھوں نے مذکورہ بالا شعر کہاہے اور دوسری طرف شور وغل والے اشعار بھی کثرت سے ان کے یہاں موجود ہیں: مثلاً
تمنا ہے کہ دنیا سے غلامی کو بدل ڈالوں شہنشاہوں کا سر پائے بغاوت سے کچل ڈالوں
یہی حال موجودہ زمانہ کے بہت سے مسلم رہنماؤں کا ہے۔ بعض اوقات ان کی تقریر یا تحریر میں کوئی گہری، سنجیدہ بات بھی دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ محض وقتی اور سطحی بات ہوتی ہے۔ وہ ان کی معرفت سے نکلی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جگہ اگر صبر کا لفظ بولتے ہیں تو دوسری جگہ جذبات بھڑکانے کا کام کرنے لگتے ہیں۔ ایک جگہ تعمیر خویش کی بات کہتے ہیں تو دوسری جگہ تخریب غیر پر پرجوش کلام کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں۔ شاعرانہ کلام میں تضاد (contradiction)ہوتا ہے، اور معرفت والے کلام میں ہم آہنگی۔