29جنوری 1985
سارے قرآن میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں فطرت کے مظاہر کی ایسی توجیہہ کی گئی ہو، جس سے سائنسی تحقیقات کی نفی لازم آئے۔یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس قسم کا کوئی واقعہ نہیںملتا جو چرچ کی تاریخ میں ’’گلیلیو‘‘ کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اسلام میں اس کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی کہ علمی نظریات کے لیے کسی کی پکڑ دھکڑ کی جائے یا اس کو سزا دی جائے۔
نظریاتی احتساب کی مثالیں اسلامی تاریخ میں خالص مذہبی لوگوں کے یہاں نہیں پائی جاتیں۔ صرف معتزلہ کے یہاںاس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ معتزلہ کٹر مذہبی لوگ نہیںتھے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنے آپ کو روشن خیال کہتے تھے، اور آزادیٔ فکر کے علَم بردار تھے۔
معتزلہ نے عباسی حکمرانوں کی مدد سے اپنے نظریاتی مخالفین کا زبردست احتساب کیا۔ اسی احتساب کی ایک مثال امام احمد بن جنبل ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو زبردست سزائیں دی گئیں۔ صرف اس لیے کہ وہ ’’خلقِ قرآن‘‘ کے مسئلے میں معتزلہ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔
امام احمد بن حنبل کو مسلسل مارا گیا۔مارنے والے ایک جلاد نے بعد میں اس ضرب کی شدت کے بارے میں کہا تھا :ضربت أحمد بن حنبل ثمانين سوطا، لو ضربته فيلا لهدمته (المنهج الأحمد لأبي اليمن العليمي، ج 1 ص 107)۔ یعنی، میں نے احمد بن حنبل کو 80 کوڑے مارے۔ اگر میں اس طرح کسی ہاتھی کو مارتا تو اس کو گرادیتا۔