9اپریل 1985
1973 کا واقعہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کی لڑائی میں فلسطینیوں کا کافی نقصان ہوا تھا،اور مسلمانوں میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔ 19 اکتوبر 1973 کو جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام دہلی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس جامع مسجد سے شروع ہو کر امریکی سفارت خانہ پر ختم ہوا۔ دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ اطراف کے شہروں کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آ آکر اس میں شامل ہوئے تھے۔ میں بھی الجمعیۃ ویکلی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس جلوس میں شریک تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے گیٹ پر جمع ہوگئے۔ لوگ اس قدر جوش میں تھے گویا کہ وہ گیٹ کو توڑ کر سفارت خانہ کے اندر داخل ہوجائیں گے۔ تاہم وہاں پولیس کا کافی انتظام تھا، اس ليے لوگ اندر داخل نہ ہوسکے۔
مولانا سید احمد ہاشمی صاحب (وفات 2001) نے ایک ٹرک پر کھڑے ہوکر تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں جوش وجذبہ کا مظاہرہ کرنے کے بعد آخر میں کہا کہ اس وقت فلسطینی عربوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ خون ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کے ليے انھیں فوری طورپر خون پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں ایک رجسٹر رکھا گیا ہے۔ آپ میں سے جو لوگ خون دینا چاہیں، وہ رجسٹر میں اپنا نام لکھوادیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی فوراً خون نہیں لیا جائے گا، ابھی صرف نام اور پتہ لکھا جائے گا۔ جتنے آدمی نام لکھوائیں گے، ان کی فہرست یہاں ہم عرب سفارت خانہ میں دے دیں گے۔ اس کے بعد ان کے مطالبہ کے مطابق آپ حضرات کو خون دینے کے لیے بلایا جائے گا۔
مقرر نے اپنے اس اعلان کو بار بار دہرایا، اوران کو نام لکھوانے پر ابھارا ۔مگر غالباً ہزاروں کے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا، جس نے رجسٹر میں اپنا نام لکھوایا ہو۔ امریکی سفارت خانہ کے خلاف جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے والے اس وقت بالکل ٹھنڈے ہوگئے ،جب انھیں اپنا خون دینے کے ليے پکارا گیا ۔ ایک ایک شخص خاموشی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف واپس چلا گیا۔