26 جولائی 1985
ایک صاحب قرآن کا درس دے رہے تھے۔درمیان میں یہ آیت آئي:يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ (5:101)۔ یعنی اے ایمان والو، ایسی باتوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو ناگوار گزریں۔
حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا :جناب، اس آیت میں لفظ اَشْیَاءَ حرف جار (عَنْ) کے بعد آیا ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق یہاں اشیاء پر زیر ہونا چاہیے تھا۔ پھر اُس پر زبر کیوں ہے۔ یعنی وہ مکسور کے بجائے مفتوح کیوں ہے۔مفسر صاحب نے فوراً جواب دیا: میرے بھائی، یہی تو وہ بات ہے جس سے آیت میں پوچھنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر خود آیت جس سوال سے منع کررہی ہے وہی سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔
یہ بظاہر ایک جواب ہے۔ مگر جو لوگ عربی زبان اور عربی نحو سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی جواب نہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے، اور وہ اس کا ایک جواب دیتا ہے، اور اپنی لاعلمی سے وہ سمجھتا ہے کہ جواب ہوگیا۔ حالاں کہ جاننے والوں کے نزدیک وہ جواب نہیں ہوتا۔