25فروری 1985
بزرگوں کی بزرگی ثابت کرنے کے لیے کس طرح جھوٹے قصے گھڑے جاتے ہیں، اس کی ایک دلچسپ مثال ذیل کا قصہ ہے:
مولانا قاسم نانوتوی کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہے کہ مولانا نانوتوی دار العلوم دیو بند میں استاد تھے۔ دارالعلوم کی طرف سے ان کو دس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ نواب صدیق حسن خاں (بھوپال) نے ان کو لکھا کہ آپ دیوبند سے بھوپال آجائیں۔ یہاں آپ کو 300روپئے ماہوار پیش کیے جائیں گے۔ مولانا نانوتوی نے ان کو جواب میں لکھا :’’میں یہاں مدرسہ میں دس روپیے ماہوار تنخواہ پاتا ہوں۔ 5روپیے میں بچوں کا خرچ چل جاتا ہے، اور بقیہ پانچ روپیہ کا مصرف ہر ماہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں بھوپال آجاؤں تو مجھ کو ہر ماہ 295روپیہ کا مصرف تلاش کرناہوگا۔ اور یہ زحمت اٹھانا میرے لیے مشکل ہے‘‘۔
اس سلسلے میں مولانا محمد عبد الحق (انچارج دفتر دار العلوم دیوبند) کا ایک مضمون الجمعیۃ 4 جنوری 1975میں چھپا ہے۔ انھوں نے اس قصہ کو سراسر بے بنیاد بتایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنی ساری عمر کبھی دار العلوم دیوبند سے کوئی تنخواہ ہی نہیں لی (ملاحظہ ہو، سوانح قاسمی جلد اول، صفحہ 536 )۔
جب مولانا نانوتوی دار العلوم دیوبند سے سرے سے کچھ تنخواہ ہی نہیں لیتے تھے تو ان کے بارے میں مذکورہ قصہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔