7مارچ 1985
ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون مصافحہ کے شرعی طریقہ کے بارے میں ہے۔ اس میں ’’احادیث نبوی‘‘ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دو نوںہاتھوں سے مصافحہ کرنا افضل ہے۔ تاہم ایک ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک حنفی عالم کا مضمون ہے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث علما یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا افضل ہے، اور ان کے پاس بھی حدیث موجود ہے۔
اس طرح کے امور میں افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑنا سراسر خلاف سنت ہے۔ جس معاملے میں بھی ایک سے زیادہ طریقہ حدیثوں میں موجود ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں توسع ہے۔ یعنی یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست ہے۔ ایسے تمام امور میں دونوں ثابت شدہ طریقوں کو درست قر ار دینا چاہیے، نہ کہ ایک کو افضل اور دوسرے کو غیر افضل ثابت کیا جائے۔
اسی لیے حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ میں یہ پسندنہیںکرتا ہوں کہ اصحابِ رسول اختلاف نہ کرتے۔ کیوں کہ اگر صرف ایک قول ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے۔ وہ لوگ نمونہ تھے۔ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اگر کوئی آدمی ان میں سے کسی کے بھی قول کو اختیار کرلے تو وہ آسانی میں ہے(مَا أُحِبُّ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْتَلِفُوا؛ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ قَوْلًا وَاحِدًا كَانَ النَّاسُ فِي ضِيقٍ وَإِنَّهُمْ أَئِمَّةٌ يُقْتَدَى بِهِمْ وَلَوْ أَخَذَ رَجُلٌ بِقَوْلِ أَحَدِهِمْ كَانَ فِي سَعَةٍ) جامع بیان العلم و فضلہ، اثر نمبر1689۔
بعدکے لوگوں میں جو فقہی اختلافات ہوئے ان سب کا ابتدائی سبب صحابہ کے یہاں موجود تھا۔ مگر فرق یہ ہے کہ صحابہ کا ذہن ان اختلافات میں یہ تھا کہ یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست۔ مگر بعد کے لوگوں نے یہ بدعت کی کہ ان اختلافات میں افضل اور غیر افضل تلاش کرنے لگے۔ بس یہیں سے شدت پیدا ہوئی، اور اختلاف آخر کار نااتفاقی بن گیا۔ اختلافی امور میں توسع کا ذہن ہو تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مگر جب افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جائے تو وہیں سے تباہ کن اختلاف کا آغاز ہوجاتا ہے۔