14 اگست 1985
شاہ ولی اللہ اور ان کے پیروؤں نے کہا کہ سکھ اور مرہٹہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ سکھ اور مرہٹہ راستہ سے ہٹا دئے گئے۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں باقی رہا۔شاہ عبد العزیزاور ان کے پیروؤں نے کہا کہ انگریز سے اسلام کو خطرہ ہے۔ انگریز کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا جو مسئلہ تھا وہ حل نہ ہوا۔
محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیڈروں نے کہا کہ ہندو فرقہ سے اسلام کوخطرہ ہے۔ ہندو سے کٹ کر مسلمانوں کی علیحدہ ریاست قائم ہوگئی۔ مگر اس کے باوجود اسلام مسائل سے گھرا رہا۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کے ہم خیال لوگوں نے کہا کہ ایوب اور بھٹو سے اسلام کو خطرہ ہے۔ ایوب اور بھٹو کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔ مولانا علی میاں اوران کے ماننے والوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کےشاہ بانو کیس کے فیصلہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ پارلیمنٹ نے مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے آزاد کردیا۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں گھرا رہا۔
یہ مسلمانان ہند کی تقریباً چار سو سال کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ ہر وہ طاقت جس کو مسلمانوں نے اسلام کا دشمن قرار دیا وہ راستے سے ہٹائی جاتی رہی۔ مگر اسلام اور مسلمان بدستور خطرات میں گھرے رہے۔ ہندستان میں بھی، پاکستان میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی۔ یہ طویل تجربہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ مسلم قائدین کی نشان دہی غلط تھی۔ مگر مسلمانوں کی بے شعوری کا یہ حال ہے کہ ہر اگلا قائد پچھلے قائدین کا صرف مقلد بنا ہوا ہے۔ ماضی کی نادانیوں نے مسلمانوں کو کوئی سبق نہیں دیا۔