28  اگست 1985

سائنس کی تاریخ میں اکثر بڑی دریافتیں اتفاق (chance) کے ذریعہ پیش آئی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے اس کے لیے ایک خاص لفظ وضع کیا ہے، جس کو سرینڈیپٹی (serendipity) کہا  جاتا ہے۔ یہ لفظ سرندیپ کی ایک کہانی سے لیاگیا ہے۔ بہت سے لوگ سائنسی دریافتوں کو خوش گوار واقعات (happy accidents) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکسرے (X-rays) کی دریافت اتفاقی طورپر ہوئی۔

تاہم یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اتفاق بذات خود دریافت تک پہنچاتا ہے۔ ہندستانی سائنس داں سی وی رمن (Chandrasekhara Venkata Raman, 1888-1970)نے صحیح کہا  — ایسا اتفاق صرف سائنس داں کو پیش آتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو باتوں کو جانتا ہو اور وہ تحقیق میں لگا ہوا ہو، وہی بوقت اتفاق کسی بات کو پکڑ سکتا ہے۔ اسی بات کو فرنچ سائنس داںپاسچر (Louis Pasteur, 1822-1895) نے ان الفاظ میں کہا تھا  —مشاہدات کے میدان میں اتفاق صرف تیار ذہن کے لیے کار آمد ہوتا ہے:

In the field of observation, chance favours only the prepared mind.

اکسرے کا موجد رانٹجن (Wilhelm Conrad Röntgen, 1845-1923) قرار پایا۔ حالاں کہ اس سے پہلے یہ کروکس (William Crookes, 1823-1919) کے مشاہدہ میں آئی تھی۔ مگر اس نے اس کو بے معنی (nonsense) قرار دے کر نظر انداز کردیا، وغیرہ۔

نئی چیز دریافت کرنے کے لیے سب سے اہم چیزیں دو ہیں۔ ایک، تجسس (curiosity)، دوسرے یہ کہ آدمی وہ ضروری معلومات رکھتا ہو جس کے بعد وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے وابستہ (link) کرسکے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom