28فروری 1985
میں نے ایک خانقاہ میں چند دن گزارے۔ یہاں میں نے دیکھا کہ لوگ زور وشور سے ذکربالجہر کررہے ہیں۔ میں نے وہاں کے ایک عالم دین سے کہا یہ ذکر بالجہر جس کی گونج ہر خانقاہ میں سنائی دیتی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قرآن کے نص صریح کے خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میں آیا ہے:وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ (7:205)۔ یعنی اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو اپنے دل میں، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور پست آواز سے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے یہاں اس قسم کے ذکر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس زمانے میں مطلق اس کا رواج نہیں تھا کہ لوگ بیٹھ کر بلند آواز سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار کررہے ہوں۔
انھوں نے جواب دیا۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ کی روحانیت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جو آپ کو دیکھتا تھا وہ ایمان کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا تھا۔ مگر بعد کے دور میں جب یہ چیز باقی نہ رہی تو بزرگوں نے ذکر بالجہر کا طریقہ اختیار کیا۔ اس سے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے اور دل کو پاک صاف کیا جاتا ہے۔
’’بزرگوں‘‘ کی طرف سے اس قسم کا جواب دیا جانا اور مریدوں کا نہایت وفاداری کے ساتھ اس کو محفوظ کرلینا ظاہر کرتا ہے کہ مسلم قوم میں دینی فکر کی سطح آج کتنی پست ہوچکی ہے۔ ذکر عبادت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ عبادت کے لیے یہ امر مسلم ہے کہ یہ اجتہاد کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ یعنی اس کا تعین صرف خدا کرسکتا ہے۔ اِنسان اس کی صورت متعین نہیں کرسکتا۔ اب مذکورہ بالا سوال پر غور کیجیے تو منطقی طورپر یہ جواب جہاں پہنچاتا ہے وہ یہ کہ ’’ہم پیغمبر نہیں بن سکتے تھے، اس لیے ہم نے خدا کی نشست پر قبضہ کرلیا ہے۔‘‘