13 جولائی 1985
میں 1948میں جماعت اسلامی سے متاثر ہواا ور جلد ہی اس کارکن بنالیا گیا۔ اس زمانے میں میرا قیام اعظم گڑھ میں تھا۔ میں وہاں کی مقامی جماعت سے وابستہ تھا، جس کے امیر اس وقت ماسٹر عبد الحکیم انصاری تھے۔1950 کے لگ بھگ زمانہ میں میرا یہ خیال ہوا کہ میں پاکستان چلا جاؤں، اور وہاں پر کوئی کام کروں۔ رکن جماعت کی حیثیت سے میرے لیے ضروری تھا کہ میں امیر جماعت اسلامی ہند سے اس کی اجازت حاصل کروں۔ اس وقت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی جماعت اسلامی ہند کے امیر تھے۔ میں نے ان کو اجازت کے لیے خط لکھا تو انھوں نے اجازت نہ دی۔ ان کو یہ تردد تھا کہ میں پاکستان جاکر کوئی کام نہ کرسکوں گا، اور وہاں مشکلات میں پھنس جاؤں گا۔
اس خط وکتابت کا ذکر میں نے مقامی امیر ماسٹر عبد الحکیم انصاری صاحب سے کیا۔ وہ میری تجویز سے متفق ہوگئے ،اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ پاکستان چلے جائیں۔ وہاں آپ کو کام کے زیادہ مواقع ملیں گے۔
چوں کہ مولانا ابوللیث صاحب (امیر جماعت اسلامی ہند) مجھے منتقل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اس لیے انھوں نے مولانا ابواللیث صاحب کے نام ایک سفارشی خط لکھا۔ اس خط میں میری تجویز کی پرزور تائید کرتے ہوئے انھوں نے جو کچھ لکھا اس میں سے ایک جملہ یہ تھا:
’’میں وحید الدین خاں کو عرصہ سے جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایک بار طے کرلیں تو ہمالیہ پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے کھسکا دیں‘‘۔
ماسٹر عبد الحکیم صاحب کا یہ خط مولانا ابواللیث صاحب کو بھیج دیا گیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے اجازت دے دی۔ اگر چہ بعد کو خود میری رائے بدل گئی، اور میں پاکستان نہ جاسکا۔