24جون 1985
مسلمانوں کے ایک قائد نے ہندستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا ذمہ دار ہندوؤں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد مسلسل مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر دفاعی ذہن پیداہوگیا ہے۔ ان کے اندر وہ مثبت ذہن پیدا نہیں ہوتا جو تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے ہندو جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا سلسلہ بند کریں تاکہ مسلمان تعمیر و ترقی کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔
میں کہوں گا کہ مسلمانوں کی تعمیر کی راہ میں اصل رکاوٹ ہندو صاحبان نہیں ہیں بلکہ مذکورہ بالا قسم کے مسلم قائدین ہیں، جو مسلمانوں میں صحیح ذہن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ یہ قائدین مستقل طورپر ایک ہی کام کررہے ہیں، اور وہ ہے ذہن کو بگاڑنا۔ ا س دنیا میں رکاوٹوں کے باوجود کام کیا جاتا ہے، نہ کہ رکاوٹوں کے بغیر۔ یہ دنیا کبھی رکاوٹوں سے خالی نہیں ہوسکی۔ اسی لیے رکاوٹوں کی شکایت کرنا ہی بے معنی ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم رکاوٹوں کے اندر سے اپنے لیے امکان تلاش کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے مکہ اور مدینہ میں جو رکاوٹیں تھیں، وہ ہماری رکاوٹوں سے ایک کرور گنا زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے ’’تعمیر وترقی‘‘ کے کام کی صورتیں نکالیں۔ حتی کہ انھوں نے تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔ اگر وہ قریش اور یہود اور منافقین سے مطالبہ کرتے کہ ہمارے راستہ کی رکاوٹیں ختم کرو تاکہ ہم تعمیری کام انجام دے سکیں تو نہ کبھی رکاوٹیں ختم ہوتیں، اور نہ کبھی تعمیری کام کا آغاز ہوتا۔
ہمارے قائدین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو رکاوٹوں کے باوجودکام کرنے کا سبق دیں۔ رکاوٹوں کے بغیر کام کا جو نسخہ وہ پیش کررہے ہیں، وہ کسی خیالی جزیرہ میں ممکن ہوسکتاہے۔ موجودہ مقابلہ کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔