16 نومبر 1985
حضرت بریدہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا:اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، قَالَ:فَقَالَ:وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3475) ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کیوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے، بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، اور کوئی اس کے برابر کا نہیں ۔یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آدمی نے اللہ کا ایک بہت بڑا نام (اسم اعظم) لے کر دعا کی ہے۔ یہ نام لے کر جب سوال کیا جائے تو وہ پورا کیا جاتا ہے اور جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔
اس حدیث کے مطابق لوگوں کو تلاش ہوئی کہ خدا کا ’’اسم اعظم‘‘ کیا ہے۔ اس تلاش میں بہت سی دوسری روایتیں بھی ملیں جن میں یہی بات کہی گئی تھی۔ مگر ان روایتوں میں دوسرے ایسے اسماء تھے جو اس حدیث میں نہیں ہیں۔ البتہ لفظ ’اللہ‘ تمام روایتوں میں مشترک تھا، اس سے یہ استدلال (reasoning)قائم کرلیا گیا کہ اللہ ہی اسم اعظم ہے (أَنَّ لَفْظَ اللَّهِ مَذْكُورٌ فِي الْكُلِّ فَيُسْتَدَلُّ بِذَلِكَ عَلَى أَنَّهُ الِاسْمُ الْأَعْظَمُ)تحفۃ الاحوذی، جلد9، صفحہ 313۔
اس استنباط (inference)کے مطابق لوگ ’’اللہ‘‘ کو اسم اعظم سمجھ کر اس کا وِرد کرنے لگے۔ مگر حدیث کا یہ مطلب نہیں۔ حدیث میں لفظ ’’اسم‘‘ صفت کے معنی میں ہے اس سے مراد کوئی خاص لفظ نہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جب آدمی اللہ کی صفات عالیہ کو دریافت کرتا ہے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے بے تابانہ خدا کو پکارتا ہے تو ایسی پکار ضرور قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔