25جون 1985
زندگی بے حد مشکل امتحان ہے۔ اس مشکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اکثر معاملات میں آدمی کو کٹھن فیصلہ لیناہوتا ہے، کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف۔ یہ طے کرنا کہ کب کس رُخ پر اقدام کیا جائے، یہ بے حد نازک اور مشکل کام ہے، بلکہ شاید اکثر اوقات میں انسانی عقل سے باہر۔ کیوں کہ صحیح فیصلہ لینے کے لیے مستقبل کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، اور مستقبل کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ وہ ہے جو آپ نے صلح حدیبیہ کے وقت لیا اور دوسرا فیصلہ وہ ہے جو آپ نے فتح مکہ کے وقت لیا۔ دونوں دو انتہائی فیصلے تھے۔ صلح حدیبیہ کے وقت مکمل طورپر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور فتح مکہ کے سفر میں مکمل طورپر آگے بڑھنے کا۔ دونوں انتہائی فیصلے تھے۔پیغمبر کا فیصلہ خدا کی وحی کی بنیاد پر تھا، اس لیے پیغمبر اسلام کے لیے ممکن تھا کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن معاملے میں صحیح فیصلہ لے سکے۔ مگر عام انسان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن فیصلے اتنے درست طور پر لے سکے۔ عام آدمی کے لیے ِ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (صحیح البخاری، حدیث نمبر3560)کے مطابق، یہی راستہ ہے کہ وہ ممکن (possible)یا آسان تر کو پہچانے اور اس کو اختیار کرے۔