9 دسمبر 1985
الرسالہ میں فرقہ وارانہ فساد کے مسئلہ پر جب تبصرہ کیا جاتا ہے تو یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کی کوتاہی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے کہا کہ یہ انداز انصاف کے خلاف ہے۔ آپ کو دونوں طرف کی غلطیاں اور کوتاہیاں بتانا چاہیے۔
میں نے کہا کہ ظاہری اعتبار سے دیکھنے میں آپ کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر اصلاح اور تربیت کے اعتبار سے یہ غیر مفید بلکہ نقصان دہ ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ پچاس فی صد اور پچاس فی صد کا معاملہ ہے۔ یعنی نصف غلطی ایک فریق کی ہے اور نصف غلطی دوسرے فریق کی ہے ، تو اس طرح فوکس بدل جائے گا۔ مسلمان 50 فی صد یا اس سے کم ہی اپنی کوتاہیوں پر اپنا دھیان جما سکیں گے۔ اس لیے داعی اور مصلح یہ کرتا ہے کہ وہ صرف ایک ہی فریق کی کوتاہیوں کو بیان کرتا ہے تاکہ فوکس نہ بدلے اور اس کی ساری توجہ اپنے احتساب اوراصلاح پر لگ جائے۔
قرآن کا طریقہ یہی ہے۔ چنانچہ وہ فریقِ ثانی کی سازشوں اور مظالم کو غیر مذکور چھوڑ کر صرف مسلمانوں کی کوتاہیوں پر انھیں توجہ دلاتا ہے جس کی ایک مثال احد(3:155) اور حنین (9:25) کے بارے میں قرآن کا تبصرہ ہے۔