11مئی 1985
حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئی کا کام کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے زرہ بناتے تھے (الانبیاء، 21:80)۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے کپڑا سینے کا کام کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بکریاں چرانے کا کام کیا (القصص، 28:27-28)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مدت تک چرواہی کاکام کیا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2149)۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا عین اسلامی طریقہ ہے۔ تمام پیغمبروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہاتھ سے کام کرکے اپنی روزی کمانا عزت کی چیز ہے، نہ کہ ذلت کی چیز جس کو کرتے ہوئے آدمی شرمائے۔حدیث میں آیا ہے:مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2072)۔ یعنی کسی نے کھانا نہیں کھایا، جو بہتر ہو اس انسان سےجو اپنے ہاتھ کے عمل سے کھاتا ہے۔اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے عمل سے کھایا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے :إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِف (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1072)۔ یعنی اللہ حرفت کے ذریعے روزی کمانے والے کو پسند کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کو حقیر سمجھنا دورِ ملوکیت اور مسلمانوں کے دورِ زوال کی پیداوار ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کو بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا۔