12 جولائی 1985
میں جن لوگوں سے اپنی زندگی میں غیر معمولی طورپر متاثر ہوا ان میں سے سے ایک مولانا عبدالباری ندوی (1886-1976) ہیں۔ ان سے نہ صرف میری ملاقاتیں ہوئی ہیں بلکہ ایک مختصر عرصہ تک میں ان کی رہائش گاہ پر مقیم بھی رہا ہوں۔
موصوف مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفۂ مجاز تھے۔ مولاناتھانوی نے ان کو رسمی بیعت کے بغیر مرید کیا تھا، یعنی مولانا اشرف علی تھانوی نے ان سے مجازی بیعت لی تھی۔ جن دنوں میں ان کے یہاں مقیم تھا (غالباً یہ 1967 کے اوائل کی بات ہے)،میں نے ایک روز ان سے کہا کہ آپ مجھے بیعت کرلیجیے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ خوش رہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ پیدائشی صوفی ہیں۔ آپ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو اسی طرح اپنے حلقۂ بیعت میں لیتاہوں جس طرح مولانا تھانوی نے مجھ کو اپنے حلقۂ بیعت میں لیا تھا۔
مولانا عبد الباری ندوی میرے کام کے سلسلہ میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھ کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا:
باقی میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں۔
مولانا عبد الباری ندوی کے بارے میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’مسٹر مولوی‘‘۔ یہ الجمعیۃ ویکلی 7 مارچ اور 14 مارچ 1969 میں دو قسطوں میں چھپا تھا۔