5اکتوبر 1985
قرآن کے سلسلہ میں ایک مسئلہ اختلافِ قرأت کا ہے۔مگر اختلافِ قرأت کا مطلب اختلافِ متن نہیں ہے۔قرآن میں جو اختلافِ قرأت ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک وہ اختلاف جو لہجہ (accent) کے فرق کا نتیجہ ہے۔ چوں کہ عرب کے مختلف قبائل میں الفاظ کی ادائیگی میں بعض فرق پایا جاتاتھا، اسی بناپر قرآن کی قرأت میں بھی بعض مقامات پر فرق ہوگیا۔ مثلاً مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (1:4) کے بجائے مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (میم کے بعد الف کے بغیر)یا قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (114:1) کی جگہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاتِ ، وغیرہ۔ اس قسم کا فرق صرف پڑھنے کا فرق ہے، ان میں کتابت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
اختلافِ قرأت کی دوسری صورت وہ ہے جس میں لفظ کا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہے:أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ(17:93)۔ یعنی یا تمہارے پاس سونے کا کوئی گھر ہوجائے۔ اس آیت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے پڑھا:أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ ذَهَبٍ(تفسیر ابن کثیر، جلد5 ، صفحہ120)۔یا مثلاً سورہ الجمعہ میں ہے: فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (62:9) ۔یعنی اللہ کی یاد کی طرف چل پڑو۔ اس کو بعض صحابہ نے اس طرح پڑھا: فَامْضُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ 120)۔ یا مثلاًسور البقرۃ میں ہے: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ (2:198)۔ یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔اس کو ا بن عباس نے اس طرح پڑھا ہے: لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ(فضائل القرآن للقاسم بن سلام، صفحہ 325)۔یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو حج کے زمانے میں۔
اختلاف قرأت کی یہ دوسری مثالیں قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ تفسیر کی قبیل سے ہیں۔ یعنی صحابی نے آیت کی تشریح کرتے ہوئے ایک نیا لفظ استعمال کیا تاکہ مخاطب اس کو سمجھ سکے۔ ورنہ دنیامیں ایسا کوئی قرآن موجود نہیں جس میں متن کی کتابت اس دوسرے طریقے سے کی گئی ہو۔
کسی عبارت کے مفہوم کو کھولنے کے لیے اس کے لفظ کو بدلنا پڑتا ہے۔ اختلاف قرأت کی دوسری قسم کا مطلب یہی ہے، صحابہ نے تفہیم کے مقصد سے لفظ بدل کر پڑھا۔