6 اگست 1985
میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تجربہ یہ ہے کہ لوگوں کی ڈگریوں اور لوگوں کی معلومات میں تو اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ان کے فکر وشعور میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ میں جب کسی آدمی سے لمبے عرصہ کے بعد ملتا ہوں تو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت میں اس نے کئی مزید ڈگریاں لے لی ہیں۔ مگر جب اس سے گفتگو کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکر وشعور کے اعتبار سے اب بھی وہ اسی مقام پر ہے جہاں وہ پہلے تھا۔
اس موضوع پر میں نے بہت سوچا کہ آخر شعوری ارتقا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ بالآخر میری سمجھ میں آیا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اپنے خلاف نہ سوچنا ہے، جس کو دینی اصطلاح میں احتساب کہاگیا ہے۔ تقریباً ہر ایک کا حال میں یہ پاتا ہوں کہ جیسے ہی کوئی ایسی بات کہی گئی ہو، جو اس کے اپنے خلاف ہو تو وہ فوراً ناراض ہوجاتا ہے۔ جو بات اپنے خلاف ہو،اس پر وہ معتدل انداز سے سوچ نہیں پاتا۔ میرے اندر خدا کے فضل سے بچپن سے یہ صلاحیت ہے کہ میں اپنے خلاف سوچتا ہوں۔ میرے خلاف کوئی بات کہی جائے تو میں کبھی اس پر برہم نہیں ہوتا۔ اور اگر بالفرض کبھی میرے اندر برہمی پیدا ہوجائے تو چند منٹ یا چند گھنٹوں کے اندر میں دوبارہ معتدل ہو کر اس پر غور کرنے لگتاہوں۔
مگر عجیب بات ہے کہ اپنی پوری زندگی میں مجھے کوئی ایسا شخص یاد نہیں جو اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہر آدمی جو مجھے ملا وہ اپنے موافق سوچنے کا ماہر ملا۔ اقبال کا مرد مومن ان کی تشریح کے مطابق سلف تھنکر ہوتا ہے۔ مگر میں اس کو سطحی بات سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک زیادہ گہری بات یہ ہے کہ آدمی اینٹی سلف تھنکر (anti-self thinker)ہو۔